بچے یا بہت سے لوگ قرآن پڑھتے ہوئے آگے پیچھے کی طرف ہلتے رہتے ہیں آپ سوچتے ہوں گے کہ بچے پڑھتے وقت ہلتے کیوں ہیں؟ یا پھر یہ کہ اس طرح قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت ہلنا کیسا ہے۔
قرآنِ مجید کی تلاوت کے دوران سر یا جسم کو آگے پیچھے ہلانالوگوں کو حیران کن لگتا ہے۔ لیکن حفاظِ قرآن میں تو یہ عادت عموماً اُن کے زمانۂ حفظ سے چلی آتی ہے۔ تاہم اس کے علاوہ بھی اس عمل کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔
بچے پڑھتے وقت ہلتے کیوں ہیں؟
اسکول جانے والے بچوں یا مدرسے میں سبق دہراتے یا قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت ہلنا عام نظر آتا ہے۔ والدین اور اساتذہ اکثر اس حرکت پر حیران ہوتے ہیں کہ آخر اس کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ صرف عادت ہے یا اس کے پیچھے کوئی نفسیاتی و سائنسی پہلو موجود ہے؟
دماغی یکسوئی (Focus) پیدا کرنے کا ذریعہ
انسانی دماغ ایک وقت میں کئی خیالات میں الجھا رہتا ہے۔ جب بچہ پڑھنے بیٹھتا ہے تو اس کے لیے یکسوئی پیدا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں جسمانی حرکت، جیسے آہستہ آہستہ ہلنا، دماغ کو ایک خاص ردھم (rhythm) فراہم کرتی ہے۔ یہ ردھم دماغ کو الجھاؤ سے نکال کر موجودہ کام پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کچھ لوگ قلم گھماتے ہیں یا پاؤں ہلاتے ہیں تاکہ ان کی توجہ کام پر رہے۔
ریلیکسیشن اور ذہنی سکون
ماہرینِ نفسیات کے مطابق جسمانی حرکت اور جھولنا ایک طرح کی self-soothing technique ہے۔ یعنی بچہ یا بڑا اس حرکت کے ذریعے اپنے اندر ایک سکون محسوس کرتا ہے۔ یہ کیفیت کچھ ایسی ہے جیسے ننھے بچے ماں کی گود میں جھولتے ہیں تو پرسکون ہو جاتے ہیں۔ دماغ کو یہ جھولنے کی حرکت ایک “محفوظ احساس” (sense of safety) فراہم کرتی ہے، جس سے ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے اور پڑھائی آسان لگتی ہے۔
یادداشت بہتر بنانے کا عمل
تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پڑھتے یاسبق دہراتے وقت جسمانی حرکت کرنا یادداشت کو بہتر بنا تا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغ ایک ہی وقت میں دو سرگرمیوں کو جوڑ لیتا ہے:
پڑھنا یا دہرانا
اور جسمانی حرکت (جھولنا)
اس ملاپ کی وجہ سے یاد کی جانے والی معلومات ذہن میں زیادہ مضبوطی سے محفوظ ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے بچے قرآن پاک یا کوئی اور سبق جھوم جھوم کر یاد کرتے ہیں اور بعد میں وہ سبق زیادہ آسانی سے دہرا لیتے ہیں۔
توانائی کا اخراج (Energy Release)
بچوں میں قدرتی طور پر بہت زیادہ توانائی (energy) ہوتی ہے۔ جب وہ طویل وقت کے لیے ایک جگہ بیٹھ کر پڑھتے ہیں تو ان کی توانائی کہیں نہ کہیں نکلنے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر انہیں جسمانی کھیل یا دوڑنے کی سہولت نہ ملے تو وہ یہی توانائی آہستہ آہستہ جھولنے یا ہلنے کے ذریعے نکالتے ہیں۔ یہ عمل انہیں بوریت سے بچاتا ہے اور وہ نسبتاً زیادہ دیر پڑھنے پر توجہ دے پاتے ہیں۔
مذہبی اور ثقافتی پہلو
ہمارے معاشروں میں یہ منظر عام ہے کہ بچے دینی مدارس میں قرآن پاک پڑھتے وقت آگے پیچھے جھولتے ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق یہ صدیوں پرانی روایت ہے جو ایک “تعلیمی ماحول” کا حصہ بن گئی ہے۔ بچے ایک دوسرے کو دیکھ کر یہی انداز اپناتے ہیں اور وقت کے ساتھ یہ ایک عادت بن جاتی ہے۔
کچھ لوگ اسے روحانی یکسوئی سے بھی جوڑتے ہیں، یعنی جھولنے سے بچے کے اندر ایک روحانی وابستگی اور توجہ بڑھتی ہے۔
سائنسی تحقیق اور آٹزم کے حوالے سے
سائنسی مطالعات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کچھ بچے، خاص طور پر جو آٹزم یا دیگر سلوکی مسائل کا شکار ہوتے ہیں، وہ بار بار جھولنے یا ہلنے کی حرکت زیادہ کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ حرکت ایک طرح کی self-regulation یعنی اپنی کیفیت کو قابو میں رکھنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ تاہم عام بچوں میں بھی یہ حرکت کسی بیماری کی علامت نہیں بلکہ عموماً ایک عام عادت یا توجہ بڑھانے کا طریقہ ہوتی ہے۔
یہ صرف بچوں تک محدود نہیں۔ بڑے لوگ بھی پڑھتے یا سوچتے وقت کرسی پر ہلتے ہیں، پاؤں زمین پر مارتے ہیں یا آہستہ آہستہ جھولتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ بھی وہی ہے: ذہنی سکون، توجہ میں اضافہ اور دباؤ کو کم کرنا۔ فرق صرف یہ ہے کہ بڑے لوگ اسے زیادہ قابو میں رکھتے ہیں جبکہ بچے کھلم کھلا جھومنے لگتے ہیں۔
کیا یہ روکنی چاہیے؟
اکثر والدین یا اساتذہ بچوں کو جھومنے یا ہلنے سے منع کرتے ہیں کہ یہ “بری عادت” ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی بری عادت نہیں، بلکہ اکثر اوقات ایک قدرتی طریقہ ہے جو بچے کو پڑھائی میں مدد دیتا ہے۔
البتہ اگر بچہ حد سے زیادہ ہلتا ہے، ہر وقت بے قابو جھولتا رہتا ہے یا ساتھ دیگر مسائل بھی ہیں (جیسے زبان دیر سے سیکھنا، رویے کی مشکلات وغیرہ) تو پھر ماہرِ اطفال یا ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرنا چاہیے۔
نتیجہ: بچوں یا بڑوں کا پڑھتے وقت ہلنا یا جھولنا ایک عام اور فطری عمل ہے۔ یہ کئی وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے: دماغی یکسوئی، سکون حاصل کرنے کی کوشش، یادداشت میں بہتری، توانائی کا اخراج اور بعض اوقات محض ایک عادت۔ یہ عمل زیادہ تر بے ضرر ہے اور بچے کو پڑھنے میں سہولت دیتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اسے فوری طور پر روکنے کی بجائے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ صرف اس صورت میں توجہ دیں جب یہ حرکت غیر معمولی حد تک زیادہ ہو یا ساتھ دیگر علامات بھی نظر آئیں۔