پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی میں ڈرون ٹیکنالوجی نے جنگ کا نیا چہرہ دکھا دیا، اور پاکستان کا دفاعی نظام جنوبی ایشیا ایک نئے عسکری دور میں داخل
دنیا کی جنگی حکمتِ عملی گزشتہ دو دہائیوں میں جس تیزی سے بدلی ہے، اس کی ایک نمایاں علامت ڈرون ٹیکنالوجی ہے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب جنگیں صرف بندوقوں، توپوں اور لڑاکا طیاروں سے لڑی جاتی تھیں۔ اب میدانِ جنگ میں انسان کم اور بغیر پائلٹ کے اڑنے والی مشینیں زیادہ نظر آتی ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی میں بھی ڈرون ٹیکنالوجی نے ایک نیا موڑ پیدا کر دیا ہے۔ دونوں ممالک نے حالیہ برسوں میں نہ صرف ڈرونز کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا بلکہ اس شعبے میں عسکری دوڑ بھی تیز تر ہو چکی ہے۔
جنوبی ایشیا میں ڈرون ٹیکنالوجی کا سنجیدہ استعمال ابتدا میں نگرانی اور جاسوسی کے لیے ہوا، مگر جلد ہی یہ ہتھیار حملوں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا۔ حالیہ برسوں میں ہونے والی جھڑپوں نے واضح کیا کہ پاکستان اور بھارت اب میدانِ جنگ میں ڈرونز پر بھروسہ کر رہے ہیں۔
ایک مختصر مگر شدید چار روزہ جھڑپ کے دوران دونوں ملکوں نے پہلی مرتبہ ایک دوسرے کے خلاف بڑے پیمانے پر ڈرونز استعمال کیے۔ روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق، یہ وہ مرحلہ تھا جب برِصغیر کی عسکری تاریخ میں ایک نیا باب کھلا ایسا باب جس نے خطے کی سکیورٹی حکمتِ عملی کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔
امریکہ کی ثالثی کے بعد جنگ بندی ضرور ہوئی، مگر اس دوران دونوں ممالک نے یہ سبق سیکھ لیا کہ ڈرون وارفیئر مستقبل کی حقیقت ہے۔ اب دونوں ہی ممالک اپنے دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ ان بغیر پائلٹ طیاروں کی تیاری اور خریداری پر خرچ کر رہے ہیں۔
بھارت کا ڈرون پروگرام
بھارت نے ڈرون ٹیکنالوجی کے میدان میں تیزی سے پیش قدمی کی ہے۔ ڈرون فیڈریشن انڈیا کے نمائندہ سمت شاہ کے مطابق، نئی دہلی آنے والے دو سال میں تقریباً 47 کروڑ ڈالر اس صنعت میں لگانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ یہ سرمایہ کاری لڑاکا اور نگرانی کرنے والے ڈرونز کی تیاری اور اپ گریڈیشن کے لیے ہے۔
بھارتی حکومت نے دفاعی خریداری کے طویل بیوروکریٹک مراحل کو مختصر کرتے ہوئے ڈرون ساز کمپنیوں کو براہِ راست تجربات اور مظاہروں کی دعوت دینا شروع کر دی ہے۔ بھارتی کمپنی آئیڈیا فورج، جو ملک کی سب سے بڑی یو اے وی ساز ادارہ ہے، اب اپنی مصنوعات کو اس قابل بنا رہی ہے کہ وہ الیکٹرانک جنگ میں کمزور نہ پڑیں۔ بھارت نے اسرائیل سے جدید ہاروپ اور ہیرون ڈرونز حاصل کیے ہیں جبکہ مقامی سطح پر بھی رسٹم، سوئفٹ اور گھاتک جیسے منصوبوں پر کام جاری ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں پاکستان چین کے ساتھ دفاعی شراکت بڑھا رہا ہے، وہیں بھارت کا ڈرون پروگرام چینی پرزہ جات پر منحصر ہے۔ ڈرون فیڈریشن انڈیا کے سربراہ کے مطابق، بھارت اب بھی بیٹریوں اور میگنیٹس کے لیے چینی درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ یہ ایک بڑی اسٹریٹجک کمزوری ہے کیونکہ کسی بھی بحران کی صورت میں بیجنگ سپلائی روک سکتا ہے۔ یہی مسئلہ یوکرین کو بھی درپیش آیا، جب چین نے ڈرون پارٹس کی فروخت پر پابندی لگا دی تو اس کی مقامی پیداوار متاثر ہو گئی۔
پاکستان کا دفاعی نظام اور حکمتِ عملی
دوسری جانب، پاکستان نے اپنی محدود مالی گنجائشوں کے باوجود ڈرون ٹیکنالوجی میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ پاکستانی فضائیہ اپنے پائلٹ طیاروں کو خطرے سے بچانے کے لیے ڈرونز پر انحصار بڑھا رہی ہے۔ اسلام آباد نے ترکی اور چین کے ساتھ اشتراک کے ذریعے مقامی پیداوار کی راہ ہموار کی ہے۔
پاکستانی نیشنل ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک اور ترک دفاعی کمپنی بائیکار کے درمیان شراکت داری کے تحت “وائی آئی ایچ اے تھری” طرز کے ڈرون مقامی سطح پر اسمبل کیے جا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک یونٹ محض دو سے تین دن میں تیار کیا جا سکتا ہے، جو مقامی صلاحیت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاکستان کا دفاعی نظام انتہائی مظبوط ہے۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ محدود وسائل کے باوجود مقامی سطح پر ڈرون تیار کرنے اور دشمن کی دراندازی روکنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال صرف دفاع تک محدود رکھا جائے، تاکہ جنوبی ایشیا ڈرون جنگوں کی بجائے ٹیکنالوجی کے امن والے دور میں داخل ہو۔
پاکستان کے اپنے تیار کردہ شہپر ٹو ڈرونز نے حالیہ جھڑپوں میں فعال کردار ادا کیا۔ یہ ڈرونز گلوبل انڈسٹریل اینڈ ڈیفنس سلوشنز (GIDS) کے تیار کردہ ہیں اور اپنی ساخت، پرواز کی حد اور کارکردگی کے اعتبار سے جنوبی ایشیا میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔
اپریل کے آخر میں کشمیر کے متنازع علاقے میں ہونے والے ایک دہشتگرد حملے کے بعد جب حالات کشیدہ ہوئے تو بھارت نے فضائی حملے کیے۔ جوابی طور پر پاکستان نے اگلی رات 1700 کلومیٹر طویل سرحد پر تقریباً 400 کے قریب ڈرونز لانچ کیے، جنہوں نے 36 مختلف مقامات سے بھارتی فضائی دفاع کو چیلنج کیا۔ یہ ڈرونز ترکی ساختہ سونگر، وائی آئی ایچ اے اور پاکستانی شہپر ٹو تھے۔
بھارت نے ان حملوں کے جواب میں اپنے سرد جنگ کے دور کے اینٹی ایئرکرافٹ گنز استعمال کیے، جنہیں جدید ریڈار سے جوڑا گیا تھا۔ یہ دفاعی حکمت عملی حیران کن حد تک مؤثر ثابت ہوئی اور بھارتی ذرائع کے مطابق بیشتر ڈرونز مار گرائے گئے۔ تاہم پاکستان نے اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا۔ اسی دوران بھارت نے اسرائیلی ہاروپ، پولینڈ کے وارمیٹ اور مقامی یو اے ویز پاکستان کے اندر کارروائیوں کے لیے استعمال کیے۔
کچھ ڈرونز نے پاکستانی سرزمین پر مبینہ طور پر شدت پسند ڈھانچوں کو نشانہ بنایا، جبکہ کچھ خودکش ڈرونز کے طور پر استعمال ہوئے جو ہدف کے اوپر پھٹ جاتے ہیں۔ پاکستان نے بھی دفاعی چال کے طور پر جعلی ریڈار نصب کیے تاکہ دشمن کے ہاروپ ڈرونز کو اپنی جانب کھینچ کر تباہ کیا جا سکے۔ یہ ایک سائبر اور الیکٹرانک وارفیئر کی عمدہ مثال تھی۔
ماہرین کے مطابق، ڈرون ٹیکنالوجی نے جنگ کو low cost high impact یعنی کم خرچ میں زیادہ اثر والی حکمتِ عملی میں بدل دیا ہے۔ مائیکل کوگلمین، جو واشنگٹن میں جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر ہیں، کہتے ہیں کہ اگرچہ یو اے ویز میں میزائلوں جیسی دھاک نہیں ہوتی، مگر یہ اپنی لانچ کرنے والی قوت کے ارادے اور مقصد کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔
یہ بات درست بھی ہے، کیونکہ ڈرون ایک ایسا ہتھیار ہے جو دشمن کو نفسیاتی دباؤ میں ڈال دیتا ہے۔ یہ پائلٹ کے بغیر دشمن کے اندر گھس کر کارروائی کر سکتا ہے اور کسی بڑی جنگ کو بھڑکائے بغیر بھی سیاسی یا عسکری پیغام پہنچا دیتا ہے۔
پاکستانی دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد نعیم لودھی کے مطابق، ڈرونز آج کی جنگ کا نیا چہرہ ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ دشمن کی آنکھوں سے بچ کر اندرونی نظام کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ لیکن ان کا مؤثر استعمال صرف ہتھیار سے نہیں بلکہ مربوط کمانڈ اور انٹیلی جنس نظام سے ممکن ہے۔
ڈرون خطرہ جتنا بڑھ رہا ہے، دفاعی ٹیکنالوجی بھی اتنی ہی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں ڈرون شکن نظاموں کے میدان میں قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ریڈیو فریکوئنسی جامنگ، جی پی ایس سموفنگ، اور لیزر ہتھیاروں پر مبنی نظام تیار کیے جا رہے ہیں۔
پاکستانی فوج کے ریسرچ ادارے نیسکام اور پی اے ایف نے “شاہین-III ریڈار” اور “سائلنٹ ہنٹر” جیسے چینی نظاموں کو ملکی ماحول کے مطابق ڈھالا ہے۔ کراچی، گوادر، لاہور اور راولپنڈی جیسے حساس علاقوں میں اب ریڈیو جامنگ اور سائبر دفاعی نیٹ ورکس فعال ہیں تاکہ کسی بھی دشمن ڈرون کو وقت پر ناکارہ بنایا جا سکے۔
اے آئی کا خودکار دفاعی نظام میں کردار
جدید جنگ اب محض ہتھیاروں کی نہیں بلکہ ڈیٹا اور آٹومیشن کی جنگ ہے۔ پاکستانی تجزیہ نگار ڈاکٹر رضوان اسلم کے مطابق، پاکستان نے صرف ہارڈ ویئر پر نہیں بلکہ سافٹ ویئر اور مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی پر بھی بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ نظام خودکار طور پر دشمن ڈرون کے سگنلز، رفتار، سمت اور الیکٹرانک سگنیچر کا تجزیہ کرکے چند سیکنڈز میں ردعمل دے سکتے ہیں۔ یہی صلاحیت مستقبل میں پاکستان کو خطے میں الیکٹرانک وارفیئر کا لیڈر بنا سکتی ہے۔
اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو مستقبل کی جنگوں میں انسان محض کمانڈ سینٹرز تک محدود رہ جائیں گے۔ ڈرونز، خودکار زمینی روبوٹس، اور اے آئی سے چلنے والے ہتھیار سرحدوں پر گشت کریں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی حالیہ ڈرون جھڑپ نے دراصل ایک نئے عسکری دور کا آغاز کر دیا ہے، جہاں فضائی محاذ پر فیصلہ مشینیں کریں گی۔